قبروں کا احترام اور سعودی حکومت کا طرز عمل

.....اب سعودی حکومت پر کیا واجب ہے..........
..........قبروں کے آداب.و.احترام...........
 ...........آٹھ شوال یومِ سیاہ..........

اہم سوال:
کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ قبروں کو گرا کر زمین کے برابر کر دو...اور قبر پر مت لکھو،قبر کیسی ہونی چاہیے.....؟؟
.
جواب:
قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا
ترجمہ:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک مسنم یعنی اونٹ کے کوہان کی طرح کم و بیش ایک بالشت بلند تھی 
(بخاري روایت1390)
.
صحابہ کرام نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو کم و بیش ایک بالشت زمین سے بلند کیا اگر قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام یہ کام نہ کرتے
۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُشَّ عَلَى قَبْرِهِ الْمَاءُ، وَوُضِعَ عَلَيْهِ حَصْبَاءُ مِنْ حَصْبَاءِ الْعَرْصَةِ، وَرُفِعَ قَبْرُهُ قَدْرَ شِبْرٍ
ترجمہ:
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا گیا اور ان کی قبر مبارک پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں رکھی گئی اور اور نبی پاک کی قبر مبارک زمین سے کم و بیش ایک بالشت بلند کی گئی  
(سنن کبری بیہقی حدیث6737)
.
رَأَيْت قَبْرَرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِبْرًا أَوْ نَحْوَ شِبْرٍ
ترجمہ:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھا وہ ایک بالشت یا کم و بیش ایک بالشت زمین سے بلند تھی 
(تلخیص الحبیر روایت790)
.
نبی پاک کے زمانے مبارک میں جو مسلمان ، صحابی وفات پاتا ان کی قبر کو بھی کم و بیش ایک بالشت بلند کیا جاتا جیسا کہ شہداء احد کی قبروں کو ایک بالشت بلند کیا گیا
.

وقد كانت القبور في عهد النبي صلى الله عليه وسلم ترفع عن الأرض قدر شبر،
ويرفع قدر شبر تقريبا هذه هي السنة في القبور
ترجمہ:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں مسلمانوں کی قبریں ایک بالشت کے قریب قریب بلند ہوتی تھی اور سنت بھی یہی ہے کہ قبر تقریبا ایک بالشت بلند ہو 
(مجموع فتاوی ابن باز13/313۔۔ 4/ ٣٢٩( 
.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «رَأَيْت ُقُبُورَ شُهَدَاءِ أُحُدٍ جُثًى مُسَنَّمَةً
ترجمہ:
شہدائے احد کی قبور مسنم(اونٹ کی کوہان کی طرح زمین سے کم و بیش ایک بالشت اوپر )تھیں
 المصنف استاد بخاری روایت11736)
.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کی قبر پر پانی چھڑکا..(ابن ماجہ حدیث1551)
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی قبر کے اوپر کنکریاں ڈالیں...(سنن کبری حدیث6740)
۔
یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے جابجا لکھا ہے کہ قبر کو مسنم یا مسطح یا مربع جو بھی ہو لیکن ایک بالشت زمین سے بلند کیا جائے 
۔
ويسنم القبر) مرتفعا قدر أربع أصابع أو شبر؛ لما روى البخاري في صحيحه عن ابن عباس أنه رأى قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - مسنما،
ترجمہ:
قبر کو مسنم کیا جائے گا یعنی چار انگل برابر یا ایک بالشت زمین سے بلند کیا جائے گا کیونکہ امام بخاری نے سیدنا ابن عباس سے روایت کی ہے کے سیدنا ابن عباس نے نبی پاک کی قبر مبارک مسنم یعنی زمین سے تقریبا ایک بالشت بلند دیکھی
الاختیار1/96
.
ومقدار التسنيم أن يكون مرتفعا من الأرض قدر شبر، أو أكثر قليلا.
ترجمہ:
قبر کے مسنم ہونے کی مقدار یہ ہے کہ زمین سے ایک بالشت یا ایک بالشت سے تھوڑا اوپر ہو 
1/320 بدائع
۔
۔
ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ رسول کریم کی قبر مبارک اور صحابہ کرام کی قبور مبارک خود صحابہ کرام نے ایک ایک بالشت کے قریب قریب بلند کی صحابہ کرام نے یہ عمل اپنی طرف سے تو نہیں کیا ہوگا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و اجازت سے کیا ہوگا تو ثابت ہوا کہ قبروں کو کم از کم ایک بالشت بلند ہونا چاہیےیہی سنت ہے
۔
اب آئیے اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں جس میں ہیں کہ قبر کو برابر کر دیا جائے 
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قال يحيى: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن ابي وائل ، عن ابي الهياج الاسدي ، قال: قال لي علي بن ابي طالب : " الا ابعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ان لا تدع تمثالا إلا طمسته، ولا قبرا مشرفا إلا سويته "
ترجمہ:
‏‏‏‏ ابی الھیاج اسدی رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو بھیجتا ہوں اس کے لئے جس کے لیے مجھ کو بھیجا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہ نہ چھوڑ کوئی تصویر(بت مجسمہ)مگر مٹا دے اس کو اور نہ چھوڑ کوئی بلند قبر مگر اس کو برابر کر دے...(صحیح مسلم حدیث2243)
۔
اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ زمین کے برابر کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ برابر کر دیا جاے اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ عام قبروں کے مطابق ایک بالشت کے برابر کردیا جائے یا پھر اگر اس حدیث کا معنی زمین بوس کر دینا لیا جائے تو یہ حکم کفار کی قبروں کے متعلق ہے نہ کہ مسلمانوں کی قبروں کے  
۔
نبی پاک کے زمانے مین مسلمانوں کی تدفین اور دیگر معاملات کو آپ علیہ السلام کی ہدایات کے تحت ہوتی تھیں پھر مسلمانوں کی اس وقت قبریں اونچی کیسی ہوگئیں..؟؟
کیا نعوذ باللہ رسول کریم یا صحابہ نے اسلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلند قبریں بنوائیں اور پھر خود ہی انکو گرانے کا حکم دیا...؟؟
.
 تو پھر حضرت علی کو ایسا حکم غیرمسلموں کی قبروں کے بارے مین تھا یا مسلمانوں کی...؟؟
.
کہین ایسا تو نہین کہہ کافروں کی قبروں کے بارے مین جو حکم تھا خوارج کی طرح اسے مسلمانوں پر فٹ کیا گیا.........؟؟
.
امره عليه السلام عليا (ان لا يترك قبرا مشرفا الا سواه ولا تمثالا الا طمسه) - قلت - الظاهر ان المراد قبور المشركين بقرينة عطف التمثال عليها وكانوا يجعلون عليها الانصاب والابنية فاراد عليه السلام ازالة آثار الشرك
وكذا حديث علي لا تترك قبرا مشرفا
الا سويته اي سويته بالقبور المعتادة 
رفعها مسنمة قدر شبر على ما عليه عمل المسلين في ذلك
خلاصہ: 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت علی کو حکم دیا کی قبروں کو برابر کردیا جائے  اور مجسموں کو تصویروں کو ڈھا دیا جائے تو یہ حکم مشرکین کی قبر کے لئے تھا
یا
یا پھر اس حکم کا معنی یہ ہے کہ قبروں کو عام قبور کے مطابق ایک بالشت برابر کردیا جائے 
الجوہر النقی4/4)
روایات اور اس وضاحت سے ثابت ہوگیا اور دیگر احادیث سے ثابت ہوگیا کے مسلمانوں کی قبروں کو زمین بوس نہ کیا جائے بلکہ ایک بالشت بلند کیا جائے یہی سنت ہے حتی کہ بعد کے نجدیوں نے بھی اسے سنت کا اقرار کیا ہے...
.
شیخ ابن باز نجدی لکھتا ہے
ويرفع قدر شبر تقريبا هذه هي السنة في القبور
نعم القبور لا بأس أن ترفع قدر شبر كما ثبت من حديث
أما حديث علي وما جاء في معناه فالمراد به الإشراف الزائد على هذا
ترجمہ:
قبروں میں سنت یہ ہے کہ تقریبا ایک بالشت زمین سے بلند ہوں جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہے اور وہ جو حضرت علی والی حدیث ہے کہ قبروں کو برابر کردو تو اس کا معنی یہ ہے کہ ایک بالشت سے زیادہ ہو تو ایک بالشت کے برابر کردو 
(مجموع فتاوی ابن باز4/329 +ویب سائیٹ)
۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کی قبر کے سرہانے بڑا پتھر رکھا اور فرمایا: یہ نشانی کے لیے ہے
(ابوداؤد حدیث3206)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کے قریب میں نشانی کے لیے کچھ رکھا جا سکتا ہے یا لکھا جاسکتاہے وہ جو لکھنے کی ممانعت حدیث میں ہے وہ قبر کے اوپر لکھنے کی ممانعت ہے یا نشانی کے علاوہ کتابت کی ممانعت ہے
.
الحدیث:
انزل من القبر لا تؤذ صاحب القبر ولا يؤذيك
ترجمہ:
قبر سے اتر جا، قبر والے کو اذیت نا پہنچا اور وہ تجھے اذیت نہین پہنچائے..
(صحیح مستدرک حاکم حدیث6502
طبرانی..شرح معانی الاثار.. مجمع الزوائد.. مسند احمد.. مرقات.. معالم السنن... وغیرہ بہت کتب میں یہ حدیث موجود ہے)
.
اس حدیث پاک سے دو باتین نہایت واضح ہوتی ہیں کہ
1:قبر والے کو بھی اذیت ہوتی ہے
2:مردہ اذیت بھی پہنچا سکتا ہے
مر کھپ گئے، مٹی مین مل گئے کہنا بدعت ہے... اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے... اسلام قبرپرستی سے روکتا ہے مگر قبروں کا احترام بھی سکھاتا ہے..
.
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں
اسنادہ صحیح...یعنی اس حدیث کی سند صحیح ہے
(فتح الباری3/225)
.
امام بخاری کے استاد فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس کا فرمان ہے کہ:
أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته
ترجمہ:
مردے کو اذیت.و.تکلیف دینا ایسے ہے جیسے اسے زندہ حالت مین اذیت پہنچانا...
(المصنف روایت نمبر 11990)
.
اور بھی بہت احادیث بلکہ آیات سے یہ بات ثابت ہے... علماء نے اس پر رسائل اور کتابیں لکھی ہیں...
حتی کہ نجدی علماء بھی احترامِ مقابر کا لکھ گئے..
.
ابن قییم جوزی لکھتا ہے:
وکان ھدیہ ان لاتھان القبور و توطا وان لایجلس علیھا ویتکاء علیھا..
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں مین سے ہے کہ قبروں کی توہین نا کی جائے اور نا ہی ان پر چلا جائے، نا قبروں پر بیٹھا جائے اور نا ہی ٹیک لگائی جائے
(زاد المعاد1/524)
.

آٹھ شوال بلیک ڈے... اس دن سعودیوں نجدیوں نے صحابہ کرام تابعین اولیاء کرام کے مزارات کو گرایا تھا..بے حرمتیاں کیں... اذیت پہنچائی.. حتی کہ ہتھوڑے مارے.. قبریں زمیں بوس کر دیں
یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے
اسلام قبروں کا احترام سکھاتا ہے..
.
یقینا آپ.سوچیں گے کہ نجدیوں کی اصل کتابوں میں احترامِ مقابر ہے تو وہ قبروں کی بے حرمتی کیسے اور کیوں کریں گے...؟؟
تو بھائیو مکاری منافقت اسی کا نام ہے کہ لکھو کچھ اور اور کرو کچھ اور....یا پھر پہلے کے نجدی منکرین حدیث تھے۔۔۔یا حدیث کا غلط مطلب نکال کر خوارج کی طرح فسادی تھے فسادی تھے .۔۔۔۔اب چونکہ فتوے ان کے بدل چکے ہیں تو ان پر واجب ہے کہ قبروں کے منہدم کرنے کے فعل کی مذمت کریں اور
منھدم قبروں کو دوبارہ صحیح کریں بے شک قبے نا بنائیں مگر قبر ایک بالشت تک تو بلند کریں اور صحابہ تابعین میں سے جن کی قبریں معلوم ہے ان کی قبروں پر نام لکھیں... اتنی تعظیم اتنا احترام تو کریں...ہم اہلسنت کے مطابق شرائط کے ساتھ قبے بنانا جائز و مستحب ہے سنت یا فرض واجب نہیں..جس پر پھر کبھی تفصیلا لکھا جائے گا.....ان شاء اللہ عزوجل
.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

Comments

Popular posts from this blog

Method of Eating

سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے فضائل