کیا زمین ساکن ہے

زمین سورج چاند ساکن ہیں یا متحرک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
خبر صحیح بمقابلہ مشاہدہ و حس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
۔
شیخ الحدیث و التفسیر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
قرآن مجید رشد و ہدایت کی کتاب ہے فلسفہ اور سائنس کی کتاب نہیں ہے قرآن کریم نے اس سے بحث نہیں کی کہ(حقیتاً ماہیتاً)زمین ساکن ہے یا متحرک(تبیان القرآن9/699)
۔
 یہی نظریہ مضبوط لگتا ہے کہ زمین سورج چاند کی حرکت یا سکون کے بارے میں قرآن مجید نے حقیقتا اور ماہیتا کچھ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ قرآن مجید نے ظاہر کو بتاتے ہوئے  یہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند حرکت کر رہے ہیں۔۔۔۔بظاہر یہی لگتا ہے آنکھوں سے یہی لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہو یہ بالکل ہو سکتا ہے...اگر حقیقتا مضبوط دلائل سے یہ ثابت ہو جائے کے سورج اور چاند متحرک نہیں بلکہ ساکن ہیں اور زمین ساکن نہیں متحرک ہے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ قرآن مجید نے سوج چاند کو متحرک کہا ہے وہ ظاہر کے حساب سے کہا ہے
۔
ایک چیز ظاہرا متحرک ہو اور حقیقتا ساکن ہو ایسا ہو سکتا ہے  جیسے ہم ایک تیز رفتار ویگن یا کار میں بیٹھے ہوں تو باہر کی زمین اور درخت وغیرہ ہمیں حرکت کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں حالانکہ وہ ساکن ہوتے ہیں لیکن ہمیں متحرک نظر آتے ہیں 
ایسے ہی ہمیں سورج اور چاند حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ وہ حقیقتا رکے ہوئے ہوں ساکن ہوں
.
سورج کے ساکن ہونے کی ایک دلیل یہ مشاہدہ بھی ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں دن ہوتا ہے بعض میں رات ہوتی ہے بعض جگہوں میں تو چھ مہینے سورج نکلا ہوا ہوتا ہے چھ مہینے دن ہوتا ہے اس کا مطلب ہے کہ سورج گھومتا ہوا ایک دن میں غروب نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ہمیشہ ایک جگہ پر رہ کر چمکتا رہتا ہے۔۔۔۔پھر
زمین کے بعض حصوں میں دن اور بعض حصوں میں رات کیسے ہوتی ہے؟ آیا زمین کے حرکت کی وجہ سے ہوتی ہے یا چاند کی حرکت کی وجہ سے ہوتی ہے یا سورج کے متحرک ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے۔۔۔۔۔۔؟؟ واللہ تعالی اعلم
۔
زمین کے گھومنے پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کے زمین 30 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے گھوم رہی ہے تو جہاز اور پرندے ایک سیکنڈ اوپر کھڑا رہے تو تیس کلو میٹر کسی اور زمین پر جا پہنچیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایک سیکنڈ میں وہ اسی جگہ پر اسی زمین پر ہی ہوتے ہیں
اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ زمین جہاں تک اس کی کشش ہے وہاں تک ہر چیز کو ساتھ لے کر گھوم رہی ہے گویا ایک سیکنڈ جب جہاز اور پرندہ اوپر تھا تو زمین اس کو چھوڑ کر آگے نہیں نکل گی بلکہ اس کو کشش کے ساتھ کھینچ کر آگے تیس کلومیٹر لے گی لہذا جہاز پرندہ اپنی جگہ پر ہی رہا۔۔۔۔اسی طرح عقاب اور جہاز آ سمان پر جتنی دیر بھی رہیں گے تو وہ زمین کے اسی حصے میں رہیں گےآگے فاصلہ طے نہیں کریں گے کیونکہ زمین ان کو ساتھ لے کر گھوم رہی ہے۔۔۔البتہ اپنی طاقت لگا کر اگر آگے بڑھیں گے تو ہی وہ دوسری جگہ پر پہنچیں گے۔۔۔۔ 
۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کنفرم طور پر ہم کہیں کہ سورج اور چاند حرکت میں ہیں یا ساکن ہیں کچھ بھی کنفرم طور پر نہیں کہنا چاہیے۔۔۔۔واللہ عالم کہنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ بظاہر ہماری نظر کے مطابق اور قرآن کے ظاہر کے مطابق سورج اورچاند متحرک ہیں زمین ساکن ہےلیکن عین ممکن ہے کہ زمین متحرک ہو سورج اور چاند ساکن ہو یا سارے کے سارے متحرک ہوں یا سارے کے سارے ساکن ہو۔۔۔
۔
۔مشہور ہے کہ سائنس سورج اور چاند کو ساکن کہتی ہے زمین کو متحرک کہتی ہےتو اس کے بارے میں یہ رائے رکھنی چاہیے کہ ان کے دلائل کی مضبوطی علماء تک نہیں پہنچی اور آئے روز سائنس کے نظریے بدلتے رہتے ہیں اور سائنس کی اسلام دشمنی بھی واضح ہے  اس لئے ہم ان کے نظریے کے مطابق زمین کو کنفرم متحرک اور چاند اور سورج کو کنفرم ساکن نہیں کہہ سکتے۔۔۔
۔
صحابہ تابعین کے بعض ظنی اقوال اور ظاہری نصوص کی وجہ سے بعض علماء متقدمین اور بعض علماء متاخرین  مثلا امام رازی اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت احمد رضا علیہما الرحمة وغیرہ نے جو دوٹوک زمین کو ساکن اور چاند اور سورج کو متحرک ثابت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اعتقاد رکھنا لازم ہے فرض ہے۔۔۔اگر زمین کا متحرک ہونا اور چاند اور سورج کا ساکن ہونا مشاہد اور حس سے ثابت کردیا جائے تو ظنی اقوال کی تاویل میرے مطابق یہ ہے کہ ان کے مطابق بظاہر زمین ساکن اور سورج اور چاند متحرک ہیں قرآن کے ظاہر کی وجہ سے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوگا کہ حقیقت اور ماہیت کےحساب سے بہی زمین ساکن اور سورج اور چاند متحرک ہیں کیونکہ قرآن مجید رشد و ہدایت کی کتاب ہے سائنسی ماہیات سے بات کرنا اس کا موضوع نہیں ہے....اور جو صحابہ کرام تابعین کے اکا دوکا اقوال ہیں اگرچے صحیح ہوں تو وہ خبر واحد کہلائیں گے اور خبر واحد اگرچہ صحیح ہو ظنیات میں شمار ہوتی ہے اور ظنیات کا تقابل و تضاد حس و مشاہدے سے ہو تو شرعا حس و مشاہدہ مقدم ہے ظنی صحیح قول کی تاویل یا تردید کی جائے گی
.
مفسر شہیر محقق علامہ آلوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
۔والطعن في صحة هذه الأخبار وإن كان جماعة من رواتها ممن التزم تخريج الصحيح أهون من تكذيب الحس
خلاصہ:
بعض خبر واحد اگرچہ صحیح ہوں اگر وہ حس و مشاہدے کے خلاف ہوں تو خبر واحد میں طعن و تاویل تردید کی جائے گی حس و مشاہد کو مقدم رکھا جائے گا 
(روح المعانی13/322)
لہذا اگر حس و مشاہدے سے یہ ثابت کردیا جائے کہ زمین متحرک ہے اور سورج اور چاند ساکن ہیں تو پھر خبر واحد ظنی اقوال کی تاویل یا تردید کر دی جائے گی  
۔
سورج اور چاند کو متحرک کہنے والی آیات کا معنی تو بیان کر دیا گیا کہ یہ ظاہر کے حساب سے ان کو متحرک کہا گیا ہے رہی بات اس آیت کی کہ جس میں ہے کہ پہاڑ اللہ نے بناءے تاکہ زمین اضطراب نہ کرے مائل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ  زمین زیادہ اضطراب و جنبش نہیں کرتی۔۔۔محسوس ہونے والے اضراب و جنبش زلزلہ سے اکثر زمین ساکن ہے اسی اضطراب و جنبش کی نفی قرآن مجید میں لہذا یہ آیت بھی زمین کے مطلق ساکن ہونے کی دلیل نہیں۔۔۔۔زمین گھومتی ہو یہ ممکن ہے۔۔۔باقی جو قرآن مجید میں چاند اور سورج کو چلتا ہوا گھومتا ہوا کہا گیا ہے ممکن ہے یہ مجاز و ظاہر کے معنی میں ہو۔۔یعنی ہم انسانوں کو چاند سورج بظاہر گھومتا ہوا نظر آتا ہے عین ممکن ہے کہ یہ ساکن ہو اور ہماری زمین گھوم رہی ہو
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ 

Comments

Popular posts from this blog

قبروں کا احترام اور سعودی حکومت کا طرز عمل

Method of Eating